آسماں سے ستارہ نہیں آئے گا
اب کوئی بھی اشارہ نہیں آئے گا
ہاتھ آئے گا وہ میرے تھوڑا بہت
وہ کسی طور سارا نہیں آئے گا
کیوں اِدھر مستقل دھوپ ہی دھوپ ہے
کیا اِدھر اَبر پارہ نہیں آئے گا ؟
آئیں گے دوست سارے ہی ملنے، مگر
ایک بے اعتبارا نہیں آئے گا
یہ سڑک ناک کی سیدھ میں جائے گی
اس سڑک پر منارہ نہیں آئے گا
میں پرستان لکھتا چلا جاؤں گا
جن، پری استعارہ نہیں آئے گا
ختم ہو جائے گا یہ سمندر، سحر
اِس کا لیکن کنارہ نہیں آئے گا