رکی ہوئی موج ہے کہ تیراک رک گئے ہیں
لہو کے طوفان زیرِ پوشاک رک گئے ہیں
تمام معروض میری آنکھوں میں گندھ گئے تھے
مگر اچانک شعور کے چاک رک گئے ہیں
یہ اونچے اونچے پہاڑ جیسے زمیں کے جوہر
بس ایک لمحے کو ہو کے بے باک رک گئے ہیں
وہ قہقہوں کا ہجوم تھا ہر طرف کہ آنسو
فقط تبسم کو کرکے نم ناک رک گئے ہیں
سو چاک پر خود ہی اب مجھے گھومنا پڑے گا
وہ ہاتھ تو گوندھ کر مری خاک رک گئے ہیں
یہ میرے ہاتھوں میں کہکشائیں کہاں سے آئیں
زمین اڑنے لگی کہ افلاک رک گئے ہیں
کہیں یہ لاٹھی ہمارا ہی ہاتھ ڈس نہ جائے
سو کرتے کرتے لہو کو چالاک رک گئے ہیں
انیم تطہیرِ روح کی منزلوں کے راہی
بدن کی راہوں کو کر کے ناپاک رک گئے ہیں