احسان شاہ ۔۔۔ نمودِ صبحِ درخشاں کی آبرو مرا خواب

نمودِ صبحِ درخشاں کی آبرو مرا خواب
ہر ایک عہد سے ہے محوِ گفتگو مرا خواب

تلاشِ نان و نمک کھا گئی ہے میری نیند
بہا کے لے گئی دنیائے آبجو مرا خواب

بلا رہی ہے مجھے اپنی اور مقتلِ شب
خراج مانگ رہا ہے مرا لہو مرا خواب

فصیلِ جبر کی بنیاد تک ہلا دے گا
اک انقلاب کی ہو گا کبھی نمو، مرا خواب

وہ خواب دیکھ رہی ہیں مری کھلی آنکھیں
ہر ایک خواب کی ٹھہرے گا آرزو مرا خواب

تو اپنے خواب کے زندان سے نکل کے کبھی
دھمال کرتا ہوا دیکھ چار سو مرا خواب

رفو گروں سے کہو اپنے خواب لے آئیں
کرے گا ان کے بھی ہر خواب کو رفو مرا خواب

مراقبے میں مری نیند تھی گزشتہ رات
بلند کرتا رہا بس صدائے ہُو مرا خواب

Related posts

Leave a Comment