احمد جلیل ۔۔۔ آنکھوں کے دریچوں میں سجایا نہیں جاتا

آنکھوں کے دریچوں میں سجایا نہیں جاتا
گِر جائے جو نظروں سے اُٹھایا نہیں جاتا

اس دشتِ تمنا میں مَیں جلتا ہوں شب و روز
جس سمت کبھی بھول کے سایا نہیں جاتا

ہم صبح کے بھولے ہوئے وہ لوگ ہیں جن سے
گھر شام کو بھی لوٹ کے آیا نہیں جاتا

ہر دل نہیں ہوتا ہے محبت کا سزاوار
ہر ساز پہ یہ راگ تو گایا نہیں جاتا

اب اس کو بھلانے کا ارادہ تو ہے لیکن
دریا کبھی الٹا بھی بہایا نہیں جاتا

سوچا ہے کئی بار نہ اب یاد کریں گے
کیا کیجیے وہ شخص بھلایا نہیں جاتا

یہ ہجر ہی کرتا ہے جلیل اپنا تعاقب
ہنس کر تو کوئی زہر بھی کھایا نہیں جاتا

Related posts

Leave a Comment