خوف کی سر پہ تنی ایک ردا رہتی ہے
میری نس نس سےجڑی میری قضارہتی ہے
تو مجھے کیسے ہزیمت سے کرے گا دوچار
میرے اندر تو مری ماں کی دعا رہتی ہے
پھرتی رہتی ہےیہ کس کھوج میں معلوم نہیں
اک سماعت کے تعاقب میں صدا رہتی ہے
کیسی تفریق مچی ہے کہ مری اپنی یہ ذات
مجھ میں رہتی ہےمگر مجھ سےجدارہتی ہے
جبر کی قید میں محبوس پرندوں کے سبب
درد میں ڈوبی ہوئی ساری فضا رہتی ہے
دستکیں دیتی ہے دروازوں پہ اکثر احمد
دو بدو جلتے چراغوں کے ہوا رہتی ہے