احمد فاروق ۔۔۔ صفتِ سیل ہے تو، پرِ کا ہے میں ہوں

غزل​

صفتِ سیل ہے تو، پرِ کا ہے میں ہوں
سرِ را ہے تو ہے ، سرِ را ہے میں ہوں

لبِ جو سوختۂ شبِ ما ہے میں ہوں
نظرے ! باہمہ حالِ تبا ہے میں ہوں

تری رفتار کا مارا ہوا تیرا اسیر
اُمڈ اے موجۂ زُلفِ سیا ہے ! میں ہوں

اُسی دیوار کے سائے تلے گریہ کناں
گہے گاہے تو ہے ، گہے گاہے میں ہوں

مجھے معلوم ہے کوئی نہیں آئے گا
مگر ایسا ہے کہ چشم برا ہے میں ہوں

Related posts

Leave a Comment