آنکھیں سجود میں ہیں تو دل کا قیام ہے
حیران ہیں کہاں پہ یہ اپنا قیام ہے
اشکوں کے ساتھ ساتھ ہے تاروں کا قافلہ
اور نعت کے سفر میں مدینہ قیام ہے
دل سے نکال جتنے بھی وہم و گمان ہیں
اس راہ میں یقین ہی پہلا قیام ہے
اب اپنی زندگی ہے مسلسل سفر کا نام
منزل قیام ہے نہ یہ رستہ قیام ہے
میں سوچتا ہوں غارِ حرا میں گزار لُوں
دل کے سفر میں ایک مہینا قیام ہے
سجدہ ضرور آئے گا اگلے پڑاؤ میں
فی الوقت تو یہ سارا زمانہ قیام ہے