خبر نہیں کہ ملیں ہم زباں کہیں نہ کہیں
ہماری ہو گی مگر داستاں کہیں نہ کہیں
کہاں کہاں لیے پھرتی ہے اک خیال کی رو
ہمارے دل سا بھی ہو گا سماں کہیں نہ کہیں
ضرور ملتا رہے گا مٹانے والوں کو
ہمارے بعد ہمارا نشاں کہیں نہ کہیں
شجر شجر پہ یہ سرگوشیاں ہیں پتوں کی
کہ فصلِ گل میں بھی ہو گی خزاں کہیں نہ کہیں
لہو جو دل کا جلائے ہوئے ہے کیا شے ہے؟
اگر ہے آگ تو ہو گا دھواں کہیں نہ کہیں