ارشد محمود ارشد ۔۔۔ دو غزلیں

ساغر یا پھر نینوں سے مے نوشی کی
یار وجہ کچھ ہوتی ہے مدہوشی کی

کل بھی بزمِ یاراں میں تھی بات چلی
کل بھی میں نے اُس کی پردہ پوشی کی

ملنا مشکل تھا تو مجھ کو بتلاتے
تم نے جانے کیونکر یوں روپوشی کی

سرد ہَوا کو لمس ملا جب آنچل کا
اُس نے میرے کانوں میں سرگوشی کی

کیا تھا اُس کا شعر ، کہ مارا جاؤں گا ”
ہاں میں نے آواز سنی تھی دوشی کی

تھوڑا سا ان ہونٹوں کو بھی جنبش دو
چیخ سنائی دیتی ہے خاموشی کی

عجلت میں ہر کام بگڑتا  ہے ارشد
جھولی بھرتی ہے آخر سنتوشی کی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جب کسی ذات سے محبت کی
اُس کی ہر بات سے محبت کی

چار خوشیاں کشیدنے کے لیے
لاکھ صدمات سے محبت کی

تم تو پیرس کی بات کرتے ہو
میں نے گجرات سے محبت کی

دھوپ کو بھی عزیز تر جانا 
اور برسات سے محبت کی

راز فطرت کے مجھ پہ کھلتے گئے
جب مضافات سے محبت کی

دن کی تلخی اُنڈیل کر خود میں
چاند نے رات سے محبت کی

ہم تو مثلِ صبا رہے ارشد
خار ، گْل ، پات سے محبت کی

Related posts

Leave a Comment