ازور شیرازی ۔۔۔ اس گل بدن کو چوم کے شب بار بار میں

اس گل بدن کو چوم کے شب بار بار میں
کرلوں گا اپنے آپ کو باغ و بہار میں

افسوس ہے کہ کوئی مدد کر نہیں سکا
سنتا ہی رہ گیا ہوں کسی کی پکار میں

چہرہ شناس ہونے کا دعوی اسے بھی ہے
جس کو دکھائی دیتا نہیں سوگوار میں

ہر ایک کو تلاش ہے راہِ فرار کی
چھوڑوں نہ تیرے درد کا لیکن مدار میں

اتنا پتا تو چل گیا دوزخ سے کم نہیں
رہتا ہوں جس جہان میں پروردگار میں

آتے ہیں سب غریب کی کٹیا میں شوق سے
تیری طرح سے رکھتا نہیں پہرا دار میں

کب تک رکھوں جہان میں جینے کی آرزو
حالات دیکھ دیکھ کے ناسازگار میں

امکان تیرے لوٹ کے آنے کا جب نہیں
کیوں دیکھتا ہوں گردشِ لیل و نہار میں

Related posts

Leave a Comment