اشرف سلیم ۔۔۔ تو سوچتا ہے جہاں تک وہاں سے آگے ہے

تو سوچتا ہے جہاں تک وہاں سے آگے ہے
مرا سفر ترے وہم و گماں سے آگے ہے

تعلقات، مراسم بس اب یہیں تک ہیں
مرا ٹھکانہ ترے آستاں سے آگے ہے

ابھی تو ہجر کی شدت مرے وجود میں ہے
ترا وصال کہیں لا مکاں سے آگے ہے

Related posts

Leave a Comment