عشق میں حد سے گزر جاتے ہیں
لوگ چپ چاپ سے مر جاتے ہیں
جن کو تنہائی وراثت میں ملی
کب وہ وحشت لیے گھر جاتے ہیں
جن کی آنکھوں میں ادھورے ہوں خواب
اپنی آہٹ ہی سے ڈر جاتے ہیں
بھول جاتی ہے گلی بھی اپنی
اس کی باتوں پہ اگر جاتے ہیں
کیا بتائیں تجھے محفل سے تری
اٹھ کے ہم جانے کدھر جاتے ہیں
جن پہ دعویٰ ہو محبت کا سلیم
وقت کے ساتھ بکھر جاتے ہیں