اظہر فراغ ۔۔۔ غزلیں

اسی لیے ترے دعووں پہ مسکرا رہے ہیں
ہم اپنا ہاتھ تری پشت سے اٹھا رہے ہیں

وہ خود کہاں ہے جو نغمہ سرا ہے صدیوں سے
یہ کون ہیں جو فقط اپنے لب ہلا رہے ہیں

ہوئے ہیں دیر سے ہموار زندگی کے لیے
ضرور ہم کسی لشکر کا راستہ رہے ہیں

ابھی کسی کی خوشی میں شریک ہونا ہے
ابھی کسی کے جنازے سے ہو کے آ رہے ہیں

بس اپنی خوش نظری کا بھرم رکھا ہوا ہے
شکستہ آئنے ترتیب سے لگا رہے ہیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کس کس سے کر کے اس کو خبردار جانے دوں
اندھے کو کیسے تنہا سڑک پار جانے دوں

دفتر سے مل نہیں رہی چھٹی وگرنہ میں
بارش کی ایک بوند نہ بے کار جانے دوں

جی چاہتا ہے کھول دوں اندر سے کنڈیاں
ویرانی سوئے رونقِ بازار جانے دوں

اس رسا کش پہ ڈھیل کا احسان کچھ نہیں
کب تک میں درگزر کروں ہر بار جانے دوں

ٹھوکر کے فاصلے پہ ہے بتی کا انتظام
بہتر ہے خود کو تھام کے دیوار جانے دوں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

باغ سے جھولے اتر گئے
سندر چہرے اتر گئے

وصل کے ایک ہی جھونکے میں
کان سے بالے اتر گئے

بھینٹ چڑھے تم عجلت کی
پیڑ سے کچے اتر گئے

لٹک گئے دیوار سے ہم
سیڑھی والے اتر گئے

گھر میں کس کا پاؤں پڑا
چھت سے جالے اتر گئے

ڈول وہیں پر پڑا رہا
چاہ میں پیاسے اتر گئے

اک دن ایسا ہوش آیا
سارے نشے اتر گئے

بھاگوں والی بستی تھی
جہاں پرندے اتر گئے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اٹھ گیا رزق لامکاں سے بھی
اب چلا جائے کیا یہاں سے بھی

ہونے والا نہیں یہ قصہ تمام
موڑ دیجے ورق جہاں سے بھی

پھول تیروں کی زد سے بچ نکلا
خوشبو آنے لگی کماں سے بھی

شکلِ آئندگاں بنا رہے ہیں
مشورہ ہو گا رفتگاں سے بھی

جاں نثاروں کو پوچھنا ہی پڑا
کمک آئے گی آسماں سے بھی

وقت آغاز و اختتام کے عشق
آ کریں تجھ کو درمیاں سے بھی

اتنا معصوم بھی نہیں ہے وہ
دینے پڑتے ہیں اس کو جھانسے بھی

…………..

یار بجا یار نہیں رہ گئے
راستے ہموار نہیں رہ گئے

یہ تو ازالہ ہے نئے زخم کا
اور جو آزار نہیں رہ گئے

شکر ہے اچھا ہے میرا حافظہ
ورنہ اب آثار نہیں رہ گئے

خیر پرندے تو پلٹ آئیں گے
لوگ تو اس پار نہیں رہ گئے

تم جہاں تصویر بنے بیٹھے ہو
ہم وہاں دیوار نہیں رہ گئے

وقت سے پہلے ہوئے تیار ہم
وقت پہ تیار نہیں رہ گئے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جو خوشی جو تیری رضا میاں تری خیر ہو
تو بچھڑ رہا ہے تو جا میاں تری خیر ہو

کہیں یہ نہ ہو کوئی تجھ شجر کو بھی کاٹ دے
تو بچا ہے گھر میں بڑا میاں تری خیر ہو

خبر آ نہیں رہی خیر کی کسی سمت سے
مجھے جب سے اس نے کہا میاں تری خیر ہو

تری بزم میں مرا یوں بھی کون ہے آشنا
بھلے جوتیوں پہ بٹھا میاں تری خیر ہو

تو عدو نہیں تو مرے حساب میں دوست ہے
ترے نام سے مجھے کیا میاں تری خیر ہو

مجھے مت بتا کہ یہ رات پھر نہیں آئے گی
مجھے دھوکہ دے کے سلا میاں تری خیر ہو

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بھنور سے یہ جو مجھے بادبان کھینچتا ہے
ضرور کوئی ہواؤں کے کان کھینچتا ہے

دکھا رہا ہے خریدار بن کے آج مجھے
جسے لپیٹ کے رکھوں وہ تھان کھینچتا ہے

کسی بدن کی صعوبت نڈھال کرتی ہے
کسی کے ہاتھ کا تکیہ تھکان کھینچتا ہے

نشست کے تو طلبگار ہی نہیں ہم لوگ
ہمارے پاؤں سے کیوں پائدان کھینچتا ہے

چراغوں میں وہ چراغ اس لیے نمایاں ہے
ہم ایسے دیکھنے والوں کا دھیان کھینچتا ہے

بدل کے دیکھ چکی ہے رعایا صاحبِ تخت
جو سر قلم نہیں کرتا، زبان کھینچتا ہے

یہ سارا جھگڑا ترے انہماک کا ہی تو ہے
سمیٹتا ہے کوئی داستان کھینچتا ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہمارے بارے میں تجھ بھنور کو مغالطہ ہے
ہمیں کسی کی اداس آنکھوں کا تجربہ ہے

گھٹن تو ہو گی نئی نئی راہداریوں میں
مگر حویلی کا ایک کمرہ بہت کھلا ہے

رواروی میں کہانی سنتے چلے گئے ہیں
یہ بات ویسے سنانے والا بھی جانتا ہے

میں خشک شاخوں سے چھن کے آتی ہوا پہ خوش ہوں
شجر ضعیفی کے مارے مجھ پر جھکا ہوا ہے

بتانا پڑتا ہے اس کی آنکھوں پہ ہاتھ رکھ کر
کہ کتنا مشکل ہماری آنکھوں سے دیکھنا ہے

تو کیا ہوا جو ہمیں بھی درپیش ہے مسافت
یہ ناؤ یوں بھی سمندروں کی ملازمہ ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ڈرے ہوئے ہیں سبھی لوگ ابر چھانے سے
وہ آئی بام پہ کیا دھوپ کے بہانے سے

وہ قصہ گو تو بہت جلد باز آدمی تھا
بہت سی لکڑیاں ہم رہ گئے جلانے سے

نظر تو ڈال روانی کی استقامت پر
یہ آبشار ہے کہسار کے گھرانے سے

مسافرانِ محبت مجھے معاف کریں
میں باز آیا انھیں راستہ دکھانے سے

اگر میں آخری بازی نہ کھیلتا اظہر
تو خالی ہاتھ نہ آتا قمار خانے سے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کوئی بھی شکل بنا دیں ہمیں اجازت ہے
ہمارا مسئلہ معدوم کی وضاحت ہے

سفینے میں مجھے گننے کا شکریہ لیکن
قریب کا یہ جزیرہ برائے خلقت ہے

یہ کچے سیب چبانے میں اتنے سہل نہیں
ہمارا صبر نہ کرنا بھی ایک ہمت ہے

ہیں نرخ ایک سے بازارِ حسن و حرمت کے
وہی بدن کی، وہی پیرہن کی قیمت ہے

بچا نہیں کوئی مصرف کسی اجالے کا
چراغ کے لیے بے کار کی اذیت ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Related posts

Leave a Comment