اُمید اہلِ شہر کی بَر آئے کس طرح
شاخِ ریا پہ سچ کا ثمر آئے کس طرح
باہر تو منجمد ہیں اندھیرے قدم قدم
اندر سے روشنی کی خبر آئے کس طرح
سودا ہے جس کے سر میں ابھی آسمان کا
وہ میرے ساتھ خاک بسر آئے کس طرح
دل تو پگھل رہے ہیں تری اک نگاہ سے
پتھر میں تیرا درد اُتر آئے کس طرح
روشن بجھی ہے دھوپ تو اُس کی منڈیر پر
سائے مرے وجود میں در آئے کس طرح