اعجاز کنور راجہ ۔۔۔ کہانی تو نے جو لکھّی فرات! پانی کی

کہانی تو نے جو لکھّی فرات! پانی کی
بروزِ حشر نہ ہو گی نجات پانی کی

میں جانتا ہوں ستمگر کی پیاس کا مطلب
لہو میں ڈھونڈ رہا ہے صفات پانی کی

جہاں پہ پیاس ہو، یہ اسطرف نہیں جاتا
عجب لگی ہے مجھے نفسیات پانی کی

کھنڈر کھنڈر میں ہیں کچے گھروں کی تصویریں
کہیں ہوا کی کہیں واردات پانی کی

زمیں نے سرخ رتوں کا نصاب لکھنا تھا
قلم ہوا کا لیا اور دوات پانی کی

یہ سیلٍ آب کہاں رک سکے گا مٹی سے
بڑھا رہا ہوں فقط مشکلات پانی کی

دعا کرو کہ پہاڑوں پہ برف گرتی رہے
زمین دیتی رہے گی زکوٰۃ پانی کی

گزر چکا ہے کنور سیلٍ آب بستی سے
کہیں کہیں ہیں مگر باقیات پانی کی

Related posts

Leave a Comment