افتخار شاہد ۔۔۔ اب تو سنتا ہی نہیں یار دہائی دل کی

اب تو سنتا ہی نہیں یار دہائی دل کی
پہلے کہتا تھا کہ ممکن ہے رہائی دل کی

مرے ہونٹوں کے دمکتے ہوئے چھالے دیکھو
میں نے ہونٹوں میں ذرا دیر، دبائی دل کی

اب وہ خوابوں پہ بھی اپنا ہی تسلط چاہے
جس کو بخشی تھی کبھی میں نے خدائی دل کی

اپنے جذبات کو شعروں میں پرو دیتا ہوں
خرچ کرتا ہوں میں ایسے بھی کمائی دل کی

ورنہ اس شخص کی آنکھیں بھی تو جا سکتی تھیں
میں نے حالت ہی نہیں اس کو دکھائی دل کی

اک تری یاد جو سینے سے نکلتی ہی نہیں
ورنہ کرتا ہوں میں ہر روز صفائی دل کی

چل کسی دشت یا صحرا کی طرف چلتے ہیں
بستی والوں نے بہت خاک اڑائی دل کی

میں نے ہر بار سماعت کے دریچے کھولے
اس نے پھر بھی نہ مجھے بات سنائی دل کی

روز کہتا ہوں کہ اب تجھ کو بھلا دوں شاہد
روز ہوتی ہے مرے ساتھ لڑائی دل کی

Related posts

Leave a Comment