اقبال سروبہ ۔۔۔ خزاں گزیدہ بہار ہونے سے رہ گیا ہوں

خزاں گزیدہ بہار ہونے سے رہ گیا ہوں
کسی کے دل کا قرار ہونے سے رہ گیا ہوں

رکی تو تھی میرے واسطے تیری پالکی بھی
مگر میں اس میں سوار ہونے سے رہ گیا ہوں

یہ شان مجھ کو ملی ہے نعتِ نبی کے صدقے
میں عاصیوں میں شمار ہونے سے رہ گیا ہوں

مرا یہ ہونا بھی ایک ہی مرتبہ ہوا ہے
میں چاک پر بار بار ہونے سے رہ گیا ہوں

مری بھی خواہش تھی میں بھی بحرِ عظیم ہوتا
نہ جانے کیوں بے کنار ہونے سے رہ گیا ہوں

محبتوں میں مجھے حکومت ملی نہیں ہے
میں صاحبِ اقتدار ہونے سے رہ گیا ہوں

مجھے تو اقبال پھول بننے کی آرزو تھی
عجیب قصہ ہے خار ہونے سے رہ گیا ہوں

Related posts

Leave a Comment