ٹھیک ہے ، کام بہت سے ہیں ذہیں کر سکتے
آتشِ عشق مگر سرد نہیں کر سکتے
کاش! تیار کہیں ایسی زمیں کر سکتے
آسماں زاد! جہاں ظلم نہیں کر سکتے
اوّلیں عشق نے وہ کام دِکھایا ہے کہ اب
آپ تو آپ، نہیں خود پہ یقیں کر سکتے
وقت ایسا بھی محبت پہ نہیں آنا تھا
آپ اگر بات مِری ذہن نشیں کر سکتے
صِرف تیرے لیے اس شہر میں آئے ہوئے ہم
صِرف ملنے پہ گزارا تو نہیں کر سکتے
مر بھی جاتے تو نہیں جاتے یہاں سے انجم
حُجرۂ دل میں اگر آپ مکیں کر سکتے