امتیاز انجم ۔۔۔ کون ، جانے حصار مٹی کا

کون ، جانے حصار مٹی کا
آسماں ہے غبار مٹی کا

کوئی دنیا نکال مٹی سے
کوئی پردہ اتار مٹی کا

آگ جلتی ہے راکھ ہوتی ہے
کون سہتا ہے وار مٹی کا

پانیوں کا وجود مٹی سے
آگ میں ہے شرار مٹی کا

صرف مٹی کی آبرو کے لیے
بن رہا ہے مزار مٹی کا

کاروبارِ حیات پوچھتے ہو!
چل رہا ہے اُدھار مٹی کا

اور مٹی کی کیا فضیلت ہو
میں بھی مٹی کا یار مٹی کا

آپ جس کو پہاڑ کہتے ہیں
ہے ذرا سا اُبھار مٹی کا

ماں کا قرضہ اتارنا ہے تجھے؟
پہلے قرضہ اتار مٹی کا

Related posts

Leave a Comment