آتے پَل سے بیگانہ ہیں ہم اورتم اور وہ
ایک ادھورا افسانہ ہیں ہم اور تم اور وہ
ہجر سمندر ، وصل کا لمحہ ، کیسے ماپ سکیں!
اپنا اپنا پیمانہ ہیں ہم اور تم اور وہ
باہر باہر جو بھی کچھ ہے سب ہے وہ بہروپ
اندر سے تو ویرانہ ہیں ہم اور تم اور وہ
سمٹے ہیں اک پیاس کے اندر ، ساغر ، ساقی، غم
یعنی پورا میخانہ ہیں ہم اور تم اور وہ
پڑے ہوئے ہیں شعر و سخن کی دیوی کے آگے
جیسے کوئی نذرانہ ہیں ہم اور تم اور وہ
جُرم وہ جانے تھا کہ نہیں تھا ، کیا تھا وہ نقصان!
بھرتے جس کا ہرجانہ ہیں ہم اور تم اور وہ