اُونچے گھر کا ہے اُونچا دروازہ
کم ہی کُھلتا ہے ایسا دروازہ
سُرخ دیوار پر ہری بیلیں
درمیاں پھول جیسا دروازہ
کاش ! اِک دوسرے پہ کُھل سکتے
میں ہوں اور تیرے گھر کا دروازہ
کوئی دیوار کیا اُٹھائے گا
دل میں کُھلتا ہے تیرا دروازہ
کسی آہٹ کی منتظر کھڑکی
کسی دستک کا پیاسا دروازہ
کتنے دروازے ہیں گلی میں امر
پھر بھی تنہا ہے اپنا دروازہ