تیرے لہجے کی تب و تاب میں گُم رہتے ہیں
ہم تمنائوں کے گرداب میں گُم رہتے ہیں
وہ سلیقہ ہے تیری حاشیہ آرائی میں
تیرے الفاظ کے اعراب میں گُم رہتے ہیں
کیا بتائیں کہ ابھی شغل ہے کیا شوق ہے کیا
ہم تو حالات کے سیماب میں گُم رہتے ہیں
ایک احساس نے بھڑکائی تھی لو آنکھوں کی
اب تو جذبات کے سیلاب میں گُم رہتے ہیں
ایک نادیدہ سی مسکان لیے ہونٹوں پر
تیری پیشانی کی محراب میں گُم رہتے ہیں
ہم فقیروں سے محبت کی دُعا لے جائو
دل کی ٹوٹی ہوئی مضراب میں گُم رہتے ہیں
کیا بگاڑے گی ہمارا کسی تشکیک کی گرد
ہم سفر زاد ہیں اسباب میں گُم رہتے ہیں