کھٹک رہی ہے گھُٹن کی یہ بُودوباش مجھے
پڑا ہوں میں کِسی پتھر میں تُو تراش مجھے
ملائمت سے ، نفاست سے چُھو مِرا پیکر
اور ایسے چُھو کہ نہ آئے کوئی خراش مجھے
اِدھر اُدھر کے علاقوں میں ڈُھونڈتا ہے کیا
میں تیرے دِل میں چُھپا ہُوں وہاں تلاش مجھے
سفید کانچ کے پُل پر پُہنچ کے سوچتا ہُوں
مِرا غُرور ہی کر دے نہ پاش پاش مجھے
میں پُورے قد سے کھڑا ہوں سخن سرائے میں
لگے رہے ہیں گِرانے میں بدمعاش مجھے
بدن میں خُون کی شاید کمی ہوئی پیدا
کہیں بھی سنگترے کی مِلی نہ قاش مجھے
جمال و حُسن کے پہلو کی دُھوپ ہے درکار
اے آفتابِ تمنّا نہ کر ِنراش مجھے