آفتاب خان ۔۔۔ مرے احساس کے سینے میں اک خنجر اُتارا تھا

مرے احساس کے سینے میں اک خنجر اُتارا تھا
جسے میں جان کہتا تھا ، اُسی نے جاں سے مارا تھا

میں جب اُس شہرِ ویراں سے چلا تھا رختِ گُل تھامے
تھی اُن آنکھوں میں حیرانی ، پلک پر اک ستارا تھا

مجھے جب ڈوبتے دیکھا ، خوشی تھی اُس کے چہرے پر
وہاں سے پاس تھا ساحل ، جہاں میرا شِکارا تھا

مجھے اُس کے تبسم نے غلط فہمی عطا کی تھی
مجھے اُس کی نگاہوں نے محبت پر اُبھارا تھا

ذرا سی بھی توجہ کب ، مجھے حاصل ہوئی اُس کی
بہت پُرسوز لہجے میں اُسے میں نے پکارا تھا

تری دہلیز پر پہنچا میں جب زخمِ دروں لے کر
کہاں تھا اُس گھڑی تو بھی جگر جب پارا پارا تھا

بہت تاخیر سے تم پر کھلا یہ رازِ حیرانی
جِسے اپنا سمجھتے تھے ، نہ وہ ہرگز تمھارا تھا

چلو یہ شکر ہے میں نے اُسی کی لاج رکھ لی ہے
اگر مَیں جیت بھی جاتا ، مجھے ہونا خسارا تھا

کئی ادوار پہلے بھی یہی موسم تھے طوفانی
یہی چلتی ہوائیں تھیں ، یہی رُت کا اشارا تھا

Related posts

Leave a Comment