وہ جس کی لگائی ہوئی ہر شرط کڑی ہے
اُس حسنِ بَلاخیز سے یہ آنکھ لڑی ہے
کہنے کو بہت کم ہے ہتھیلی پہ حِنا رنگ
انگشت مگر اُس کی نگینے سے جڑی ہے
نِت روز تماشا کرے خلقت سرِ بازار
اور زیست کسی چوک میں حیران کھڑی ہے
فرما دیا جو مَیں نے حقیقت ہے وہی بس
ہاں دُکھ ہے یہی ، خلقِ خدا ضد پہ اڑی ہے
ویسے تو سرِ بزم دکھائی نہ دیں آنسُو
پلکوں کے دوروں خانہ تو ساون کی جھڑی ہے
اولاد کا ہے فرض اُسے تھام لے فوراً
جِس باپ کے ہاتھوں میں بڑھاپے کی چھڑی ہے
صدیوں سے بھی آگے کا سفر یہ تو کرے گا
اِس میرے قلم سے کہاں تلوار بڑی ہے