آفتاب خان ۔۔۔ ہونٹ جُنبش نہ کریں، آنکھ میں پانی ہی نہ ہو

ہونٹ جُنبش نہ کریں، آنکھ میں پانی ہی نہ ہو
کیسے ممکن ہے بیاں ، دِل کی کہانی ہی نہ ہو

سُست قدموں سے رواں ہے جو سُوئے موجِ رواں
اُس نے گنگا میں کہیں راکھ بہانی ہی نہ ہو

جس کے کاندھوں پہ کئی صدیوں کا ہے بوجھ لدا
اُس نے یہ لاش کہیں اور دبانی ہی نہ ہو

موم اور دھاگے اُٹھائے وہ چلا آیا ہے
پھر سرِبزم کوئی شمع جلانی ہی نہ ہو

بَن سنور کر جو نکل آئے ترے شہر کی سمت
ہم نے اِس دشت سے اک شام چُرانی ہی نہ ہو

کِس لیے رختِ وفا باندھ کے گھر سے نکلیں
ہم نے اُس راہ کی گر خاک اُڑانی ہی نہ ہو

جتنی بھی بار سُنیں ہم کو نئی لگتی ہے
یہ محبت کی کہانی تو پرانی ہی نہ ہو

اضطراب اُس کی نگاہوں سے ٹپکتا ہے اگر
یہ کِسی بحرِ طلاطم کی نشانی ہی نہ ہو

اس کی خاموش لبی دل کو ڈسے جاتی ہے
اُسے دریا نہ کہو ، جس میں روانی ہی نہ ہو

جانے کِس بات پہ ہر شخص کرے اتنا غرور
کون سی چیز ہے دنیا میں جو فانی ہی نہ ہو

آفتاب اُس کو ابھی یوں ہی پڑی رہنے دے
کِسی نے عدل کی زنجیر ہِلاتی ہی نہ ہو

Related posts

Leave a Comment