آفتاب محمود شمس ۔۔۔ کسی کی آنکھ میں رکھ دے مگر چھپا سارے

کسی کی آنکھ میں رکھ دے مگر چھپا سارے
بکھر نہ جائیں کہیں خواب خوش نما سارے

’’میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں‘‘
جو میرے سوگ میں کرتے ہیں اب دعا سارے

یہی تو شہر کا منصف تھا اک زمانے میں
یہ دے رہے ہیں سڑک پر جسے سزا سارے

یہ کس کے ہجر میں رنجیدہ ہیں مہکتے گلاب
کہ پھولدانوں میں لگتے ہیں یوں خفا سارے

سفید چہرے لیے لوگ جی رہے ہیں شمس
چھپا کے داغ جسامت کے بدنما سارے

Related posts

Leave a Comment