یار نے کچھ خبر نہ لی، دل نے جگر نے کیا کیا
نالۂ شب سے کیا ہوا، آہِ سحر نے کیا کیا
دونوں کو پا کے بے خبر، کر گئے کام حسن و عشق
دِل نے ہمارے کیا کیا، اُن کی نظر نے کیا کیا
صاحبِ تاج و تخت بھی موت سے یاں نہ بچ سکے
جاہ و حشم سے کیا ہوا، کثرتِ زَر نے کیا کیا
کھل گیا سب پہ حالِ دل، ہنستے ہیں دوست برملا
ضبط کیا نہ رازِ عشق، دیدۂ تر نے کیا کیا
اکبرِ خستہ دِل کا حال، قابلِ رحم ہو گیا
اُس سے سلوک، کیا کہوں، تیری نظر نے کیا کیا