قاعدوں، رسموں، رواجوں میں نہ تعلیم میں ہے
دل کی تہذیب تو جذبات کی تنظیم میں ہے
وقت کی نبض جہاں آ کے ٹھہر جائے گی
ایسا لمحہ بھی مہ و سال کی تقویم میں ہے
اہل ِ دنیا سے تصادم میں کھلیں گی آنکھیں
یہ محبت تو ابھی عالمِ تنویم میں ہے
اس نے سوچا ہی نہیں دیس نکالا دیتے
میری ہستی کی بقا عشق کے اقلیم میں ہے
رنج و آلام کی راہوں نے سکھا دی جو مجھے
رمز لفظوں میں نہ لفظوں کے مفاہیم میں ہے
آشکارا اسے کرنا بھی نہ ہو بے ادبی
اک محبت کہ جو خوش پردۂ تعظیم میں ہے
فرض کرتے ہیں چلو خود کو اضافی جاذب
پیش مشکل جب اسے وقت کی تقسیم میں ہے