کون صلیبیں ٹھونک رہے ہیں
پھر سے مسیحا چونک رہے ہیں
شاید روشنی یوں ہی پھیلے
خود کو آگ میں جھونک رہے ہیں
ماس اور خون انھیں چاہیے ہے
شیر جو پھر سے ہونک رہے ہیں
لوگوں کا خوں چوسنے والے
پہلے جنم میں جونک رہے ہیں
منزل ہے یہ کون سی باقر
کتے کس پر بھونک رہے ہیں