تمہاری بات ہوتی جا رہی ہے
گزر اوقات ہوتی جا رہی ہے
چلو کوئی ٹھکانہ ڈھونڈتے ہیں
چلو اب رات ہوتی جا رہی ہے
ابھی موسم نہیں ہے بارشوں کا
مگر برسات ہوتی جا رہی ہے
تمہارے وصل کی شب سوچتا ہوں
بسر کیوں رات ہوتی جا رہی ہے
مری ہر بات کو وہ کاٹتے ہیں
غلط ہر بات ہوتی جا رہی ہے
وفا تو بھول ہی بیٹھی ہے دنیا
جفا دن رات ہوتی جا رہی ہے
ستارے میرے آنسو چاند جگنو
سہانی رات ہوتی جا رہی ہے
اڑائی تھی جو گردِ راہ ہم نے
وہی اب ساتھ ہوتی جا رہی ہے
بڑھی ہے مفلسی تو سب پہ ظاہر
مری اوقات ہوتی جا رہی ہے
جنوں میں شر کا عنصر بڑھ رہا ہے
خرد بد ذات ہوتی جا رہی ہے
صدائے مرحبا کوئی نہ اٹھی
فقط ہیہات ہوتی جا رہی ہے
جو بازی جیت کر بیٹھے تھے باقی
وہی اب مات ہوتی جا رہی ہے