بانی ۔۔۔ ​نہ حریفانہ مرے سامنے آ، میں کیا ہوں

غزل

​نہ حریفانہ مرے سامنے آ، میں کیا ہوں

تیرا ہی جھونکا ہوں اے تیز ہوا ! میں کیا ہوں

رقص یک قطرۂ خوں ، آپ کشش، آپ جنوں
اے کہ صد تشنگیِ حرف و صدا !میں کیا ہوں

ایک ٹہنی کا یہاں اپنا مقدر کیسا
پیڑ کا پیڑ ہی گرتا ہے جُدا، میں کیا ہوں

اک بکھرتی ہوئی ترتیبِ بدن ہو تم بھی
راکھ ہوتے ہوئے منظر کے سوا میں کیا ہوں

تو بھی زنجیر بہ زنجیر بڑ ھا ہے مری سمت
ساتھ میرے بھی روایت ہے ، نیا میں کیا ہوں

کون ہے جس کے سبب تجھ میں محبت جاگی؟
مجھ میں کیا تجھ کو نظر آیا، بتا ! میں کیا ہوں

ابھی ہونا ہے مجھے اور کہیں جا کے طلوع
ڈوبتے مہر کے ہم راہ بجھا، میں کیا ہوں

Related posts

Leave a Comment