تاج الدین تاج … انداز محبت کو سمجھتے ہی نہیں ہو

انداز ِمحبت کو سمجھتے ہی نہیں ہو
تم یار کی عادت کو سمجھتے ہی نہیں ہو

پھر کیسے کرو گے مری وحشت کا مداوا
تم جب مری وحشت کو سمجھتے ہی نہیں ہو

باتیں تو بغاوت کی بہت کرتے ہو لیکن
دستورِ بغاوت کو سمجھتے ہی نہیں ہو

تم اہل محبت ہو فقط خوگرِ نقصان
تم لوگ تجارت کو سمجھتے ہی نہیں ہو

کیا تم یونہی انجان بنے بیٹھے ہو مجھ سے؟
کیا تم مری حالت کو سمجھتے ہی نہیں ہو؟

عورت کو سمجھتے ہو فقط اپنی ضرورت
عورت کی ضرورت کو سمجھتے ہی نہیں ہو

تم ہجر کے آزار سے محروم ہو اب تک
تم ہجر کی لذت کو سمجھتے ہی نہیں ہو

تم کو تو ضروررت نے جھکا یا سرِ دربار
تم معنیٔ بیعت کو سمجھتے ہی نہیں ہو

تم زیست کے بارے میں عبث بولتے ہو تاجؔ
تم اس کی حقیقت کو سمجھتے ہی نہیں ہو
(شعر و سخن 68)

Related posts

Leave a Comment