تصور اقبال ۔۔۔ ہمیں قسمت سے لڑنا پڑ گیا تھا

ہمیں قسمت سے لڑنا پڑ گیا تھا
تصور ضد پہ اڑنا پڑ گیا تھا

طلب جنت کی دل میں آگئی تھی
سو ماں کے پاؤں پڑنا پڑ گیا تھا

خزاں میں زرد پتوں کو شجر سے
تواتر سے ہی جھڑنا پڑ گیا تھا

چُھڑا کر ہاتھ اپنا چل دیئے وہ
سرِ راہے بچھڑنا پڑ گیا تھا

اُدھر صحرا میں خشکی بڑھ گئی تھی
سمندر کو سُکڑنا پڑ گیا تھا

کسی کو تاابد خوش دیکھنا تھا
ہمیں آخر اُجڑنا پڑ گیا تھا

چلی تھی تیز آندھی اس طرح سے
درختوں کو اُکھڑنا پڑ گیا تھا

تری خاطر زمانے سے تصور
ہمیں لڑنا جھگڑنا پڑ گیا تھا

Related posts

Leave a Comment