طائرِ دل کے لیے زلف کا جال اچھا ہے
حیلہ سازی کے لیے دانۂ خال اچھا ہے
دل کے طالب نظر آتے ہیں حسیں ہر جانب
اس کے لاکھوں ہیں خریدار کہ مال اچھا ہے
تاب نظارہ نہیں گو مجھے خود بھی‘ لیکن
رشک کہتا ہے کہ ایسا ہی جمال اچھا ہے
دل میں کہتے ہیں کہ اے کاش نہ آئے ہوتے
ان کے آنے سے جو بیمار کا حال اچھا ہے
مطمئن بیٹھ نہ اے راہروِ راہِ عروج
ترا رہبر ہے اگر خوفِ زوال اچھا ہے
نہ رہی بے خودیٔ شوق میں اتنی بھی خبر
ہجر اچھا ہے کہ محروم وصال اچھا ہے