توقیر عباس

 

(نذر جون ایلیا)

قائل آہ و فغاں کے تھے ہی نہیں
سائے اس سائباں کے تھے ہی نہیں

ہمیں لوگوں نےاجنبی سمجھا 
ہم تو جیسے یہاں کے تھے ہی نہیں

اس لئے تھا گریز وحشت سے 
ہم کسی بد گماں کے تھے ہی نہیں

دستِ قدرت سے ہم ہیں نکلے ہوئے
تیر تیری کماں کے تھے ہی نہیں

ہم تھے منسوب ایک سورج سے 
دھوپ تھے سائباں کے تھے ہی نہیں

تم نے روشن تو کر لیا ہے، مگر 
ہم دیے اس مکاں کے تھے ہی نہیں

اپنے آفاق اور تھے توقیر 
ہم کسی آسماں کے تھے ہی نہیں

Related posts

Leave a Comment