ہماری اک کہانی کھو گئی ہے
تھی جس میں زندگانی کھو گئی ہے
سمجھ میں کچھ نہیں آتا کہیں کیا
یوں لفظوں سے روانی کھو گئی ہے
میں واپس عمر کی دلدل میں اتروں؟؟
وہیں میری جوانی کھو گئی ہے
جفائیں عام ہوتی جا رہی ہیں
وفا کی حکمرانی کھو گئی ہے
نیا تو دسترس میں کچھ نہ آیا
انا تھی خاندانی، کھو گئی ہے
جسے کہتے تھے اخلاص و مروت
وہ آبا کی نشانی کھو گئی ہے
ہے اب تو بدگمانی ہی مقدر
جو تھی وہ خوش گمانی کھو گئی ہے
یہ چہرہ اور چہرہ ہے ثمینہ
مری صورت پرانی کھو گئی ہے