سب کے حصے میں نہ آئی یہ سعادت آ ہا
میں اکیلا ہوں سرِ کوئے ملامت آ ہا
میں نہیں اُس کا رہا اور یہ گماں ہے اُس کو
ہے مجھے آج بھی اُس سے ہی محبت آ ہا
میری چاہت کا تقاضا ہے کہ تُو بھی چاہے
چاہتا ہوں میں محبت کی بھی اجرت آ ہا
میرے دیدار کو اُتری ہے تجلی اُس کی
ایک ذرے کی ہے سورج سے یہ نسبت آ ہا
اب تو ہر کام اٹھا رکھا ہے کل پر ہم نے
کس قدر پہلے تھی ہر کام میں عجلت آ ہا
ڈر رہا ہے میری تنہائی سے ویرانہ ٔ دشت
کیا بنا لیتی ہے انسان کو وحشت آ ہا