اسی رخ دل رواں پایا گیا ہے
جدھر روشن سا اک سایا گیا ہے
اک اُس کی دُھن میں کیا کیا گُن سمیٹے
جو گیت اندر کہیں گایا گیا ہے
ترے بخشے ہوئے اک غم کے دَم سے
یہ دل کچھ اور گہرایا گیا ہے
کبھی اک بوند بحرائی گئی ہے
کبھی اک بحر قطرایا گیا ہے
سرِ صحرا اسے بھی پڑھ کے دیکھو
ہواؤں سے جو لکھوایا گیا ہے
دمکتا ہے برابر چاند اپنا
فقط خبروں میں گہنایا گیا ہے
سخن میں سوز ہے سارا اُسی سے
ہمیں جس ہجر فیضایا گیا ہے
دُھلی راتوں کی نوری شبنموں سے
گلِ احساس اُجلایا گیا ہے
بس اک سنگِ انا ٹوٹا نہ عالی
دروں جو جو تھا بُت ڈھایا گیا ہے