جلیل عالی ۔۔۔ دلوں میں آرزو کیا کیا حسیں پیکر بناتی ہے

دلوں میں آرزو کیا کیا حسیں پیکر بناتی ہے
مگر فطرت کہاں سب نقش لوحوں پر بناتی ہے

پَروں میں مضطرب کن آسمانوں کی اڑانیں ہیں
تمنا کس بہشتِ شوق کے منظر بناتی ہے

جہانِ دل میں کیا کیا اشتیاق آباد ہیں دیکھیں
نگاہِ لطف اُس کی اب کہاں محشر بناتی ہے

یہاں خوشبو کی صورت روز و شب کی دھڑکنوں میں جی
یہ دنیا ریت کرنے کے لئے پتھر بناتی ہے

فرازِ وقت سے اُس کو صدا دینے تو دے عالی
ہوا پھر دیکھ دیوارو ں میں کتنے در بناتی ہے

Related posts

Leave a Comment