جو آگہی ہو تو پھر کچھ پہیلیاں بھی رہیں
دلہن کے گرد، دلہن کی سہیلیاں بھی رہیں
سوادِ فکر میں تعمیر ہوں نئے امکاں
درونِ شہر پرانی حویلیاں بھی رہیں
بچھی رہے مرے آنگن میں دھوپ سی چھاؤں
کپاس جیسی چمکتی چنبیلیاں بھی رہیں
حیا کی ضو سے دمکتے رہیں ترے رخسار
حنا کی لو سے دہکتی ہتھیلیاں بھی رہیں
رہے یہ سیم و زرِ مہر و مہ بھی کاسے میں
فلک کی جیب میں تاروں کی دھیلیاں بھی رہیں
طلوعِ صبح کا ہو انتظار بھی جمشید
شبِ ستم کی جبیں پر تریلیاں بھی رہیں