حامد یزدانی ۔۔۔۔۔۔۔ پُرانی شال میں قوسِ قزح کو بھرتے ہُوئے

پُرانی شال میں قوسِ قزح کو بھرتے ہُوئے
زمیں نے آئنہ دیکھا نہیں سنورتے ہُوئے

مِرے خیال کے سب رُوپ، اپنے حُسن کی دھوپ
وہ لے اُڑا ہے مِرے خواب سے گذرتے ہوئے

کچھ ایسے دوست نہیں ہیں توازن و رفتار
رہا نہ دھیان میں ڈھلوان سے اُترتے ہُوئے

کوئی چراغ جلا کر منڈیر پر رکھ د و
ہَوا اُداس نہ ہو جائے پھر گذرتے ہُوئے

کہیں جو گھر سے اُدھر بھی مِر ا ہی گھر نکلا !
ٹھٹھک گیا تھا میں دہلیز پار کرتے ہُوئے

تِرے پڑوس میں صحر ا بسا دیا کس نے؟
غبار پوچھ رہا ہے مجھے، بکھرتے ہُوئے

دبک کے خیمۂ نسیاں میں بیٹھ رہتے ہیں
ہم اُس کی یاد بھری بارشوں سے ڈرتے ہُوئے

ہر ایک موڑ پہ اک دل سجا ہُو ا دیکھا
تمہارے شہرِدل آویز سے گذرتے ہُوئے

بچا کے آنکھ چُرا لی تھی اک کرن تیری
ہماری صبح نے تاریکیوں سے ڈرتے ہُوئے

کہا نہ تھا کہ وہ سورج ہے، دل نہیں، حامدؔ
کہیں جو ڈوب رہا ہے، کہیں اُبھرتے ہُوئے

Related posts

Leave a Comment