صدائیں دیتا ہے کوئی ہر آن خالی کر
یہ خستہ حال پرانا مکان خالی کر
زمانہ نت نئے اسلوب کی تلاش میں ہے
تُو اپنے رسمِ کہن کی دکان خالی کر
کنارہ تو نہیں، گرداب اپنی منزل ہے
ہوا نکال دے، اب بادبان خالی کر
تُو کس کی گھات میں بیٹھا ہے، اپنی خیر منا
الٹنے والی ہے تیری مچان، خالی کر
نشانہ چُوک نہ جائے لرزتے ہاتھوں سے
اچھال تیر کماں سے، کمان خالی کر
نویدِ صبحِ یقیں کوئی دے گیا مشتاق
سو اب علاقہء وہم و گمان خالی کر
Related posts
-
محسن اسرار ۔۔۔ گزر چکا ہے زمانہ وصال کرنے کا
گزر چکا ہے زمانہ وصال کرنے کا یہ کوئی وقت ہے تیرے کمال کرنے کا برا... -
احمد فراز ۔۔۔ زندگی سے یہی گلہ ہے مجھے
زندگی سے یہی گلہ ہے مجھے تو بہت دیر سے ملا ہے مجھے تو محبت سے... -
فانی بدایونی ۔۔۔ آنکھ اٹھائی ہی تھی کہ کھائی چوٹ
آنکھ اٹھائی ہی تھی کہ کھائی چوٹ بچ گئی آنکھ دل پہ آئی چوٹ دردِ دل...