دل اس لیے ہے دوست کہ دل میں ہے جائے دوست
جب یہ نہ ہو بغل میں ہے دشمن بجائے دوست
مٹنے کی آرزو ہے اسی رہ گزار میں
اتنے مٹے کہ لوگ کہیں خاکِ پائے دوست
تقریر کا ہے خاص ادائے بیاں میں لطف
سنیے مری زبان سے کچھ ماجرائے دوست
سب کچھ ہے اور کچھ نہیں عالم کی کائنات
دنیا برائے دوست ہے عقبیٰ برائے دوست