زخم کو ہم پھول کی ہیئت میں لا سکتے نہیں
بے بسی کی شکل ایسی ہے چھپا سکتے نہیں
خود تلک آتے ہیں تیرے راستوں سے ہو کے ہم
اور پھر خود سے تری جانب بھی جا سکتے نہیں
بے بسی اور بے یقینی سے بھرے بے نور دن
رات کی تصویر کو روشن بنا سکتے نہیں
جسم کی بیزار سطروں پر لکھا جاتا ہے کیا
جانتے ہیں ہم مگر خود کو بتا سکتے نہیں
باپ کا بوسہ لہو میں تیرتا ہے اور ہم
لمسِ دیرینہ کی حسرت کو مٹا سکتے نہیں
خواب ہے اور اس کے ہونے کی مہک موجود ہے
ہم مگر اس خواب کی سیلفی بنا سکتے نہیں
بانوئے دنیا تری خوشبو ہوس انگیز ہے
اس خرابے سے مگر ہم دور جا سکتے نہیں
گریہ کرتی ہے کوئی آواز سینے میں کہیں
خامشی کے شور میں تجھ کو سنا سکتے نہیں
راکھ ہوتےمنظروں کی فلم ہے اور شور میں
اک مکمل زندگی کا سین لا سکتے نہیں