حنیف فوق ۔۔۔۔ فضاؤں میں کچھ ایسی کھلبلی تھی

فضاؤں میں کچھ ایسی کھلبلی تھی

کلیجہ تھام کر وحشت چلی تھی

کبھی اس کی جوانی منچلی تھی

کبھی دنیا بھی سانچے میں ڈھلی تھی

یہی آئینہ در آئینہ الفت

کبھی عکس‌ِ خفی نقشِ جلی تھی

نہ چھوڑا سرد جھونکوں نے وفا کو

جو شاخِ درد کی تنہا کلی تھی

بگاڑا کس نے ہے طبعِ جہاں کو

کبھی یہ رند مشرب بھی ولی تھی

محیط ہنگامۂ آفاق پر ہے

صدائے درد جو دل میں پلی تھی

غنیمت جانئے پھر نیم روشن

چراغ راہ سے اپنی گلی تھی

برا ہو آگہی کا زیست، ورنہ

گزر جاتی بری تھی یا بھلی تھی

ہمیں نے فوق چاہا زندگی کو

ہمیں سے کشتِ غم پھولی پھلی تھی

Related posts

Leave a Comment