خالد احمد ۔۔۔ اسی غم کی اوٹ ملا تھا وہ مجھے پہلی بار یہیں کہیں

اسی غم کی اوٹ ملا تھا وہ مجھے پہلی بار یہیں کہیں
کسی چشمِ تر میں تلاش کر اُسے میرے یار یہیں کہیں

یہ جو سمتِ عشق میں جھیل ہے ، یہ جو سمتِ غم میں پہاڑ ہیں
مری راہ دیکھ رہا نہ ہو مرا شہ سوار یہیں کہیں

مرے دل کے باب نہ کھولنا، مرے جان و تن نہ ٹٹولنا
کسی زاویے میں پڑ ا نہ ہو، وہ بتِ نگار یہیں کہیں

گلِ شام! اے گلِ سُرمگیں ! وہ خدنگِ ربطِ گُل آفریں
مری جان دیکھ ہوا نہ ہو، مرے آر پار یہیں کہیں

کسی سبز پیڑ کے سائے میں ، کسی کاروان سرائے میں
مری جان! رمز سرا نہ ہوں ، ترا رازدار یہیں کہیں

پرِ کاہ، سبز کچور سا، قدِ سر بلند کھجور سا
مرے جی میں تھا کہ سمیٹ لوں ، خط و خالِ یار یہیں کہیں

سرِ خیلِ اہلِ ہدیٰ نہ ہو، یہ فقیر مردِ خدا نہ ہو
سر اُٹھا کے دیکھ! دھرا نہ ہو، سرِ انکسار یہیں کہیں

فرسِ ہوا پہ سوار ہوں ، کہ غبارِ ناقۂ یار ہوں
مجھے راستے میں نہ چھوڑ دے مرا را ہوار یہیں کہیں

طلبِ طلب میں چلا تھا میں ، عجب اوجِ غم سے گرا تھا میں
دل و جاں شکستہ پڑ ا تھا میں ، تہِ آبشار یہیں کہیں

مرے ہم مزاج غم آشنا، دمِ احتیاج رَم آشنا
اسی کارزار میں کَھپ رہے ، مرے ہم دیار یہیں کہیں

مرے سامنے ، ترے روبرو، مرا حال تجھ کو سنا نہ دیں
مری کھوج میں تجھے آ نہ لیں ، مرے غم گسار یہیں کہیں

ترے سیلِ لمس میں بہہ گئے ، تنِ پا بہ گِل کھڑ ے رہ گئے
مرے آس پاس تلاش کر، مرے برگ و بار یہیں کہیں

مری جاں ! یہی وہ مقام ہے ، یہی مہبطِ گُلِ شام ہے
مجھے یاد ہے کہ کِھلا تھا وہ، گلِ نو بہار یہیں کہیں

یہ جو پنکھڑ ی ہے گلاب سی، یہ جو انکھڑ ی ہے شراب سی
انھیں چشم و لب میں تلاش کر، مجھے میرے یار یہیں کہیں

ترا ہاتھ دیکھتے دیکھتے مرے ہاتھ پر بھی نہ کھینچ دے
خطِ قلب و ذہن کے درمیاں ، وہ خطِ غبار یہیں کہیں

فقط ایک گام کی راہ پر، فقط ایک نام کی آہ پر
مری راہ دیکھ رہا نہ ہو، مرا انتشار یہیں کہیں

ترے سامنے ، ترے دیکھتے ، مری انگلیوں سے پھسل گئے
مرے ولولے ، مرے حوصلے ، مرا اختیار یہیں کہیں

اُسے کوچ کرنا تھا، کر گیا، مرے جسم و جاں سے گزر گیا
وہ غزالِ زاویۂ ختن، وہ گلِ غبار یہیں کہیں

ترے راستے میں ہوا ہوئیں ، مری خواہشیں ، مری کاہشیں
ہوسِ حواس بھی کھو نہ دے ، ترا بردبار یہیں کہیں

یہ جو محوِ کارِ تلاش ہیں ، یہ ترے جنونِ معاش ہیں
مجھے ڈر ہے ، اب نہ سمیٹ لیں وہ یہ کاروبار یہیں کہیں

وہ کڑ ک کہ تن میں دھمک اُٹھی، وہ تڑ ک کہ دل میں چمک اُٹھی
کوئی درد تھا، کوئی ٹیس تھی، دلِ بُردبار یہیں کہیں

یہ جو خاکِ ہجر نِژاد ہے ، یہ عروجِ اہلِ مراد ہے
اِسی جا، جنم ابھی لے نہ لیں کئی مَرغ زار یہیں کہیں

گُلِ شام! اے گُلِ سُرمگیں ! ترا ہم جمال دلِ حزیں !
مری آگ دیکھتے جل بجھا، وہ ستارہ وار یہیں کہیں

اسی تنگ و تار اُطاق میں ، اسی کنج کے کسی طاق میں
غمِ یار رکھ کے گیا تھا میں ، غمِ روزگار یہیں کہیں

یہ تہِ فصیل سراب سا، کبھی سیلِ بے ختن آب سا
مری جاں ! خیام پزیر تھے ، ترے جاں نثار یہیں کہیں

Related posts

Leave a Comment