خالد علیم ۔۔۔ نواحِ شام کی اے سرد خو ہوائے فراغ

نواحِ شام کی اے سرد خو ہوائے فراغ

جلا رہا ہوں میں اپنے لہو سے دل کا چراغ

اسیرِ حلقہء مہتاب رہنا چاہتا ہوں
یہ رات ڈھونڈ نہ لائے مری سحر کا سراغ

ستارے آنکھ کے منظر پہ کم ٹھہرتے ہیں
ہمارے ہم سخنوں کا ہے آسماں پہ دماغ

کچھ اور ڈالیے ہم تشنگاں کو ضبط کی خو
درک نہ جائے صراحی‘ چھلک نہ جائے ایاغ

چمک اٹھے ہیں تماشائے صد وصال سے بھی
ہمارے دامنِ دل پر کسی کے ہجر کے داغ

نژادِ خاک سے ہوں‘ نقشِ آسماں تو نہیں
زمیں کے چاک سے تجھ کو ملے گا میرا سراغ

Related posts

Leave a Comment