اچھے ہمدرد ہو اپنوں کا بُرا چاہتے ہو
شہر یارو ! کہو ہم لوگوں سے کیا چاہتے ہو
کیسے دِلبر ہو کہ ہر موسمِ دلداری میں
ہم فقیروں سے ہی پیمانِ وفا چاہتے ہو
صحنِ کعبہ میں بھی بیٹھے ہو تو منہ پھیرے ہُوئے
اِس تعرض پہ بھی تائیدِ خُدا چاہتے ہو
بادِ مشرق ہی بچی ہے نہ کوئی بادِ شمال
سانس لینے کے لیے کتنی ہَوا چاہتے ہو
میری مٹھی میں مِری مٹی بھی باقی نہ رہی
اور کیا مجھ سے مِرے قبلہ نما چاہتے ہو
آگ لگ جائے گی اِس خیمۂ عافیت میں
روشنی کے لیے تم جیسا دِیا چاہتے ہو
کیسے چالاک ہو ، بوسے کی طلب ہے اُس سے
اور کہتے ہو کہ خشکی کی دوا چاہتے ہو
اُڑتے پھرتے ہو کسی اور ہَوا میں خاورؔ
ایسا لگتا ہے کہ اَب تم بھی گِرا چاہتے ہو