اگرچہ شہرِ جاں میں غم نیا کوئی نہیں ہے
مگر جو ہم پہ گذری دیکھتا کوئی نہیں ہے
چراغوں کو بھی مشکل ہو رہا ہے سانس لینا
کئی دن سے دریچوں میں ہَوا کوئی نہیں ہے
اِسی خاطر کیا ہے فیصلہ صف بندیوں کا
ہمیں معلوم ہے اَب راستہ کوئی نہیں ہے
یونہی چلتا رہے گا کاروبارِ زندگانی
یہ دھوکا سب کو تھا لیکن رَہا کوئی نہیں ہے
ہمارے ہی عمل کی ہے سپیدی اور سیاہی
زمانہ خود سے تو اچھا بُرا کوئی نہیں ہے